میری پرانی کلاس فیلو عالیہ (عالی ) مکمل ناول۔ پارٹ 1



وہ کافی دیر سے بارش میں بھیگ رھی تھی۔

آج دوپھر سے شروع ھونے والی یہ بارش

مسلسل 4 گھنٹے سے جاری تھی اور اسی بارش کے نتیجے میں اس بیچاری کو بھیگنا

پڑا تھا۔بلیو ایریا کے بس سٹاپ پہ کھڑی اس لڑکی کو میں غور سے دیکھ کر افسوس کر

رھا تھا، کیوں کہ 2 لڑکے اس کی بھیگی جوانی کے دلفریب نظاروں سے اپنی آنکھیں

سینک رھے تھے، اور وہ بیچاری اپنی جوانی کو یوں سر بازار نمایاں ھوتا دیکھ کر شرم

سے ایک طرف دبکی کھڑی تھی ۔ وہ بھی یقیناْ میری طرح بس سٹاپ تک آتے ھوئے

بھیگی تھی۔

یہ ان دنوں کی بات ھے جب میں اسلام آباد میں 5 سال بعد دوبارہ نیا نیا آیا تھا۔( 5

سال پہلے میں یہیں سے اپنی تعلیم نا مکمل چھوڑ کر پشاور شفٹ ھوگیا تھا۔ ) ۔

میری نئی نئی نوکری تھی سو ہر بات سے بے نیاز میں اپنے کام میں مصروف رھتا۔ آج

ویک اینڈ پر میرا پروگرام تھا کہ وکی ( میرا بہترین دوست ) کے ساتھ اس کی موٹر سائیکل

پر ایک لمبی ڈرائیو پر ٹیکسلا کی ترف جائیں گے۔ بس سٹاپ پر رش تو بہت تھا، اگر نہیں

تھی تو بس ویگن نہیں تھی۔ چنانچہ دوسرے مسافروں کی طرح مجھے بھی بھیگنا پڑا۔

تبھی میں نے اس کو دیکھا۔ ایک بار تو ایسا لگا کہ وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رھی

ھے، لیکن بعد میں میں نے سر جھٹک دیا، کہ یہ میرا وھم ھے۔ کافی دیر بعد پھر مجھے

ایسا لگا کہ وہ لڑکی دوبارہ مجھے ھی گھور رہی ھے۔ میں نے ایک دو بار گلہ کھنکار کر اس
کی نگاھوں کا زاویہ تبدیل کروانا چاھا، مگر وہ تو ھر بات سے بے نیاز صرف مجھے ھی

دیکھ رھی تھی۔اب تو اس کی نظریں مجھے مسلسل

اپنے وجود پر چبھ رھی تھیں۔ میں نے اب اس لڑکی سے ڈاءریکٹ بات کرنے کا فیصلہ کیا،
" جی محترمہ ، کیا میںuآپ کو جانتا ھوں " میں نے اپنی آواز کو حتی الامکان دھیما
رکھتے ھوئے اس سے سوال کیا۔ اصل میں میرا ارادہ اس کو شرمندہ کرنے کا تھا، کہ وھ

اس طرح شر عام کس دیدہ دلیری سے مجھے دیکھ رھی تھی، کہ میں ایک انسان نہ

ھوا، کوئی آئس کریم ھو گیا۔ مگر اس کا جواب سن کر الٹا میں ھی بھونچکا رہ گیا۔ " جی

آپ چاھے مجھے نہ پھچانیں فیروز، لیکن میں نے آپ کو پھچان لیا ھے۔ " اس کی آواز گویا

کوئی جلترنگ بج اٹھا تھا۔ میں جہاں

اس کا جواب سن کر حیران ھوا، اس سے بھی زیادہ حیرانی مجھے اس بات پر ھو رھی

تھی، کہ وہ میرا نام لے رھی تھی۔ اب میں نے غور سے اس کو دیکھنا شروع کیا۔ اچانک

میرے دماغ میں جھماکا سا ھوا۔ " عالی تم،،، مم ،، میرا مطلب ھے، عالیہ آپ، ،،،،" میرے

منہ سے اپنا نام سن کر وہ ذرا سا مسکرائی۔ میں اب خود شرمندگی محسوس کر رھا

تھا، کہ 5 سال کے مختصر وقفے میں ھی میں اپنی کلاس فیلو عالیہ کو پھچان نہ سکا

تھا ، اور ایک وہ تھی ، کہ مجھے دیکھتے ھی پھچان گئی تھی۔ بہر حال ، میں نے آنے

والی ایک ٹیکسی روکی اور اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جانا چاھے گی، تا کہ میں وھیں

کی ٹیکسی بک کروا کے اس کے گھر پھنچنے کا انتظام کر دوں۔، اس نے اک نظر میری

طرف دیکھا، اورمسکرا کر بولی، " کراچی کمپنی۔":اس کی مسکراھٹ ماضی کی طرح آج بھی قاتلانہ

تھی۔ میں اک ذرا سا گھائل ھوا، ظالم آج بھی توبہ شکن حسن کی مالک تھی، اور

بارش میں بھیگنا گویا سونے پر سہاگہ ھو گیا تھا۔ میں نے اس کے بھرپور جسم پر اک نظر

ڈالی، اس کی آنکھوں میں حیا آمیز چمک پیدا ھوئی اور اس کی مسکراتی ھوئی نظریں

جھک گئیں ۔میں ھوش میں واپس آیا، کیوں کہ ھم مسلسل بھیگ رھے تھے۔میں

نے کراچی کمپنی کی ٹیکسی بک کر لی، اور اسکو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ھوئے گاڑی

میں بیٹھ گیا۔ عالیہ بھی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ کراچی کمپنی میں آ کر ھم نے نارنگ

بریانی سے بریانی وغیرہ کھائی۔ گرمیوں کا موسم ، باھر موسلا دھار بارش ، اندر بھیگا

جسم لئے ایک جوان اور خوبصورت لڑکی ، جس کے گیلے کپڑے اس کے بھر پور جسم

کو چھپانے کی بجائے مزید نمایاں کر رہے تھے، میرا لن فل مست ھو چکا تھا۔

سچ بات تو یہ ھے کہ میرا لن کافی دیر سے ھی مستی پکڑ رھا تھا ، لیکن بس سٹاپ پر

رش ھونے کی وجہ سے عالی کے بھیگے بدن کا نظارہ اس طرح کرنا ممکن نہیں تھا ،

جس طرح سے اب ھو رھا تھا۔ اور یہی چیز میرے لوڑے کی مستی کا سبب بن رہی

تھی ۔ ( عالی کا سراپا کسی بھی بڑے سے بڑے پارسا کے ایمان کی تباھی کے لیے

کافی تھا ، میں تو پھر بھی اچھا خاصا آوارہ مزاج تھا۔) خیر ، میں نے کھانے کے دوران

اس سے پہوچھا ، کہ ، " وہ کیوں وہاں اکیلی بارش میں بھیگ رھی تھی ، آخر اسے

ایسی کون سی مجبوری آن پڑی تھی ،،،، کیونکہ میری یاد داشت کے مطابق وہ اچھے

خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے تھی ، پھر اس کا اس طرح بھیگنا ،،، چہ معنی وارد ؟ "

میں نے یہ سوال اس لئے کیا تھا تا کہ اپنے آپ کو باتوں میں لگا کر اپنی نظروں کی

گستاخیوں کے اپنے دل پر ھونے

والے اثر کو زائل کر سکوں ، مگر میرے اس سوال پر عالی کے پری پیکر چہرے پر حزن و

ملال کے بادل چھا گئے ۔ میں نے زیادہ کریدنا ترک کر کے اس کی توجّہ بریانی کی طرف

دلائی

عالی بھی سمجھدار تھی ، چنانچہ میرے ایک سوال کے نتیجے میں ماحول پر اچانک

چھا جانے والی سنجیدگی ، چند منٹ بعد ھی گرما گرم بریانی کی وجہ سے ختم ھو

گئی۔ بعد میں چائے کے دوران اس نے خود ہی بتانا شروع کر دیا کہ ، اس کے ابّو کی ڈیتھ

ھو چکی ھے، اور ایک بھائی تھا ، جو سوتیلا تھا ، اس نے دھوکے سے سب کچھ بیچ ڈالا

، اور امریکا بھاگ گیا ،،،،،اور اب اس کی 1 چھوٹی بہن اور ایک بوڑھی ماں کی خاطر وہ

نوکری ڈھونڈ رہی تھی۔ اب وہ نارمل تھی ، بہر حال ، اس نے میرا موبائل پکڑا اور

ایک نمبر ملانے لگی ، اس کے پرس میں رکھا اس کا موبائل گنگنا اٹھا ، اس نے بہت ھی

چالاکی سے میرا نمبرع بھی حاصل کر لیا تھا ، اور اپنا نمبر بھی دے دیا تھا ۔ میںuہولے

سے مسکرا دیا ۔ گویا وہ بھی مجھ سے رابطے میں رہنا چاھتی تھی ، میری خواھش بنا

اظھار کے ھی پوری ھو گئی تھی ۔ کھانےکا بل ادا کرنے کے بعد ، میں نے باہر سے اس

کے لئے ٹیکسی پکڑی ، اور اس کو بٹھا دیا ۔ میں نے جب ٹیکسی والے کو ایڈوانس

کرایہ ادا کیا ، تو عالی نے منع کرنا چاھا ، " نہیں فیروز ، پلیز ،،، " لیکن میں

نے کہا ، " کم آن عالی ، اتنے تکلّف والی مت بنو ۔۔۔ " عالی نے ایک نظر میری آنکھوں

میں دیکھا ، اور مان گئی ۔ اس کو رخصت کر کے میں نے پرس دیکھا ، آج ایک دن میں ،

میں نے پورے ہفتے کا جیب خرچ اڑا ڈالا تھا ۔ موبائل مسلسل وائبریٹ ھو رہا تھا ، میںuنے

دیکھا ، وکی نہ جانے کب سے کال کر رہا تھا مگر میرا موڈ بدل چکا تھا ، کیونکہ بارش بند

ھو چکی تھی ، اور بنا بارش کے ، رائیڈنگ کا خاک مزہ آنا تھا ، سو میں نے سیل فون

ھی آف کر ڈالا۔

Comments

  1. مجھے فیمیل دوست چاہۓ جو سیکسی گپ شپ کرے صرف فیمیل ہی میسج کریں واٹسایپ پر03127274458

    ReplyDelete

Post a Comment