شائد عالیہ نے میرے دماغ میں آنے والے سوال کو پڑھ لیا تھا ۔ فوراْ بول اٹھی ، " محلّے
کی ایک خالہ آج رات میرے ساتھ ھی سوئیں گی میرے پاس ۔ " ، ، ، عالی کا یہ جواب
سن کر جہاں میں تھوڑا سا پر سکون ھوا ، وہیں دل کے کسی گوشے میں کوئی امّید دم
توڑ گئی ۔ شائد میں عالیہ کے ساتھ تنہائی ملنے پر شعوری طور پر پریشان ھوا تھا ، مگر
یہ بھی سچ تھا ، کہ کہیں نہ کہیں یہ بھی آرزو موجود تھی ، کہ کاش ایسی تنھائی
مجھے عالی کے ساتھ میسّر آ جائے ۔ چاھے وہ ایک رات کے لیے ھی کیوں نہ ھو ۔اور
محلّے کی ایک عمر رسیدہ عورت کی موجودگی کے احساس نے اس خواھش کا کام تمام
کر دیا تھا ۔
" وہ دیکھو ، وہ رہیں آنٹی شمیم ۔ " عالی نے اندر ایک طرف اشارہ کیا ۔ میں نے اس
کے ھاتھ کے رخ پر دیکھا ، وہاں برآمدے میں ، ایک عمر رسیدہ عورت دنیا و مافیہا سے بے
نیاز ، خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔ پنکھا فل سپیڈ میں چل رہا تھا ۔عورت ایسے
سوئی ھوئی تھی ، گویا عرصے بعد ، سونا نصیب ھوا ھو ۔ میں نے عالیہ سے افسوس کا
اظہار کیا ، دو چار رسمی جملے بولنے کے بعد میں نے اجازت طلب کی، مگر عالیہ نے
کہا ، کو آخر میں اس کے گھر پہلی مرتبہ آیا ھوں ۔ کچھ نہ کچھ تو کھا کر جاؤں ۔ " یہ کہ کر
عالی اٹھی ، اور کچن کو چل دی ۔ میں اندر ایک کمرے میں بیٹھا تھا ۔
شائد یہ عالی کا ہی کمرہ تھا کیونکہ اس میں جگا جگا عالی کی ھی تصویریں لگی
ھوئی تھیں ۔ ان میں سے چندکالج کی بھی تھیں۔ ایک تصویر میں تو میں بھی موجود تھا ۔
میں پرانے دنوں میں کھو سا گیا ۔ عالیہ کے قدموں کی آھٹ نے مجھے چونکایا ۔ وہ ھاتھ
میں بریانی پکڑے مسکرا رھی تھی ۔ میں نے چاول کھائے ، وہ مجھے کھانا دینے کے بعد
چائے بنانے کچن میں گئی ، اور میں بھی وہیں چلا گیا۔ یہ آنٹی اتنی جلدی کیوں سو
رھی ھیں ؟ " میں نے کچن میں ایک جگہ ٹیک لگاتے ھوئے سوال کیا۔ جواب میں وہ
مسکرائی ، اور بولی ،" اس لئے کہ ، میں نے آنٹی شمیم کو نیند کی ٹیبلٹ دی ھوئی
ھے، اور ئہ اب صبح آٹھ بجے سے پہلے نہیں اٹھنے والیں ۔ "
اس نے کپ میں چائے انڈیلتے ھوئے کہا ، اور میں پھر
چونک اٹھا۔ عالی مستی بھری آنکھوںuسے مجھے دیکھ رھی تھی۔ مجھے اپنی شلوار
میں اب واضح ہلچل محسوس ھو رھی تھی۔ اب کے مجھے عالیہ کی یہ بت سن کر
پریشانی نہیں ھوئی تھی ، بلکہ اچھا لگا تھا۔
عالی نے کپ اٹھایا اور میرے برابر آن کھڑی ھوئی، اس کی آنکھوں میں خمار ہی خمار نظر

آ رھا تھا۔ اس نے اپنا داھنا ھاتھ میرے سر کےبالوں پر رکھا ، ھاتھ کو ذرا سا اوپر سے
نیچے حرکت دیتے ھوئے میرے چہرے پر جب اس کا ھاتھ آیا ، تو اس نے باقی انگلیاں کلوز
کر لیں ، صرف شھادت والی انگلی میرے ہونٹوں سے ٹچ کی، میں بھی اس کا انداز
سمجھ چکا تھا ۔ ویسے بھی ، اب کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ میں نے اس کی انگلی پر ھلکا
سا کس کیا اور اس کا ھاتھ تھام لیا ۔ مگر وہ ھاتھ چھڑا کرکمرے کی طرف بھاگ گئی ،
جاتے جاتے وہ مجھے بھی اندر آنے کا اشارہ کر گئی تھی۔ میرے انگ انگ میں نامعلوم
قسم کا کرنٹ دوڑنا شروع ھو چکا تھا۔میرا لن مستی پکڑ رھا تھا۔ شائد اس کو بھی پتہ
چل گیا تھا ، کہ خواب سچا ھونے والا ھے ، اور اس کی ضرورت پڑنے والی ھے۔ میں نے
کپ اٹھایا اور عالی کے پیچھے کمرے کی جانب چل پڑا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یقیناْ میری آج کی رات انتہائی مستیوں میں گزرنے والی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچن سے کمرے تک کا سفر مجھے اس وقت بہت ھی طویل
محسوس ھو رھا تھا ۔ میرے انگ انگ میں لطیف قسم کے جذبات سر اٹھا رھے تھے ۔ جب
میں کمرے میں داخل ھوا ، عالی بیڈ کے دوسرے کنارے پر بیٹھی چائے پی رھی تھی ،
میں نے بھی اپنی چائے ختم کی ، اور کپ ایک طرف رکھ دیا ۔ دروازہ میں داخل ھوتے
وقت ھی بند کر چکا تھا جس پر عالی نے کوی اعتراض نہیں کیا تھا ۔ یعنی اب تمام
سگنل کلئر تھے ۔ میں اب بھی پیش قدمی کرنے میں ہچکچا رہا تھا ، مبادا عالی پانچ
سال پہلے کی طرح مجھے پھر بے عزّت کر دے ۔ لیکن آج عالی نے شائد سوچ رکھا تھا ،
کہ خودکی تشنگی بھی مٹائے گی ، اور مجھے بھی اپنے حسین ، مرمریں جسم کے
نشیلے جام سے سیراب کر کے چھوڑے گی ۔ وہ میرے محتاط رویّے کو بھانپ چکی تھی ۔
چنانچہ خود ھی میرے پاس آ کر کھڑی ھو گئی
قسم کی کشمکش چل رہی ھے ۔ کچھ یہی کیفیّت میری بھی تھی ۔ عالی میرے پاس آ کر کچھ دیر تک مجھے خمار
آلود نظروں سے دیکھتی رہی ، پھر اچانک ، وہ بجلی کی سی تیزی سے مجھ سے لپٹ گئی ۔ میں بھی آنے واے
لمحات کو بھانپ چکا تھا ، سو میں نے عالی کو اپنی بانہوں میں بھر لیا
عالی کی تیز چلتی سانسیں اس کے سینے کے اندر موجود تلاطم کی غمّاز تھیں ۔ میں
بھی اب پرھیز گاری کے خول سے نکل آیا تھا ، کیونکہ عالی نے تمام شرم بالائے طاق رکھ
کر اپنا وجود خود میری بانہوں میں دیا تھا ۔
اور اگر میں یہاں پر بھی گریز سے کام لیتا ، تو یہ عالی کی توھین ھوتی ، اس کے مکھن
ملائی جسم کی توھین ھوتی ، اور میں اتنا بھی ظالم نہیں تھا ، کہ اس طرح حسن کو
ذلیل کروں ، چنانچہ اب میں حسن کی صحیح معنوں میں قدر کر رھا تھا ۔ میرے ھاتھ
آٹومیٹک انداز میں اٹھے ، اور اس کی گھنیری زلفوں میں حرکت کرنے لگے ۔ گو کہ عالی
کے جسم کا لمس مجھے پاگل کر رھا تھا ، مگر میں اتنا بھی بے صبرا نہیں تھا ۔ جنگ
لڑنے سے پہلے میدان۔ جنگ ھموار کرنا انتہائی ضروری تھا ، میرے ھاتھ اس کی سیاہ
زلفوں میں حرکت کرتے کرتے اب اس کے شانوں پر آ گئے تھے ، لیکن اس سے بھی خاص
کام جو میں نے کیا تھا ، وہ یہ تھا کہ ، ، ، ، میں نے عالی کا چھرہ اوپر اٹھا لیا تھا ، اور
اس کی حسین پیشانی پر کسنگ کر رھا تھا ۔ پیشانی کے بعد میں نے اب اس کے گالوں
کا رخ کیا ، عاللی کے تیز چلتے سانسوں کی آواز مجھے صاف اپنے کانوں میں سنائی دے
رھی تھی۔ اس کی سانسوں کی تیز آواز میرے جذبات کو مزید بھڑکا رھی تھی ۔ میں
اب کسنگ کرتے کرتے اس کے ھونٹوں پر آ چکا تھا ۔

ھوتے ھوئے اس کے چوتڑوں کو ٹچ کر رھے تھے ۔ اف، ، ، کیا مست جسم تھا عالی کا ،
میں نے اپنے ھونٹ اس کے گلاب ھونٹوں میں پیوست کر دئے ، اور ھلکے سے کاٹ لیا ،
بے ساختہ عالی کے منہ سے سسکاری نکلی ، اور اس نے فوراْ اپنی بند آنکھیں کھول
کر میرے آنکھوں میں جھانکا ۔ یہی تو میں چاھتا تھا ، کہ جب میں اس کے ھونٹوں کی
کسنگ سٹارٹ کروں تو اس وقت اس کی آنکھیں کھلی ھوں ، تا کہ میں اس کے چہرے
کے تاٴثّرات نوٹ کر سکوں ، میرا یہ عمل صرف جنسی اشتعال کو مھمیز کرنے کے لیئے تھ
۔
عالی سے نظریں ملتے ھی میں شرارت سے مسکرایا ، اور اس کے ھونٹ چوسنا شروع
کر دئے ۔ عالی بلش ھو کر رہ گئی ۔ میں نے پہلے آھستہ آھستہ کسنگ سٹارٹ کی تھی
، پھر میں نے اسکی سپیڈ میں اضافہ کر دیا ، میرے ھاتھ اب عالی کی قمیض کے اندر
حرکت کر رھے تھے ۔ میں نے اس کی کسنگ کے ساتھ اپنے ھاتھوں سے اس کی کمر
کی پیمائش کی ، اور ھاتھ پھیرتا پھیرتا اس کی چھاتی پر پہنچ گیا ۔ اس نے اندر برا پہنا
ھوا تھا ، میں نے اسی ھاتھ سے اس کے ممّوں کو برا کی قید سے آزاد کیا ، اور ذرا سا
پیچھے ھٹ آیا ، عالی مستی کی انتہاؤں پر تھی ، نا سمجھی کے انداز میںuمجھے
دیکھنےلگی ، میں نے اس کی قمیض پکڑ کر اوپر کی جانب اٹھانا چاھا ، وہ سمجھ گئی ،
اور قمیض اٹھانے لگی ،، ، مگر دوسرے ھی لمحے اچانک اس نے قمیض نیچے کر دی ۔
میری پرانی کلاس فیلو عالیہ (عالی )
شائد عالیہ نے میرے دماغ میں آنے والے سوال کو پڑھ لیا تھا ۔ فوراْ بول اٹھی ، " محلّے
کی ایک خالہ آج رات میرے ساتھ ھی سوئیں گی میرے پاس ۔ " ، ، ، عالی کا یہ جواب
سن کر جہاں میں تھوڑا سا پر سکون ھوا ، وہیں دل کے کسی گوشے میں کوئی امّید دم
توڑ گئی ۔ شائد میں عالیہ کے ساتھ تنہائی ملنے پر شعوری طور پر پریشان ھوا تھا ، مگر
یہ بھی سچ تھا ، کہ کہیں نہ کہیں یہ بھی آرزو موجود تھی ، کہ کاش ایسی تنھائی
مجھے عالی کے ساتھ میسّر آ جائے ۔ چاھے وہ ایک رات کے لیے ھی کیوں نہ ھو ۔اور
محلّے کی ایک عمر رسیدہ عورت کی موجودگی کے احساس نے اس خواھش کا کام تمام
کر دیا تھا ۔
" وہ دیکھو ، وہ رہیں آنٹی شمیم ۔ " عالی نے اندر ایک طرف اشارہ کیا ۔ میں نے اس
کے ھاتھ کے رخ پر دیکھا ، وہاں برآمدے میں ، ایک عمر رسیدہ عورت دنیا و مافیہا سے بے
نیاز ، خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔ پنکھا فل سپیڈ میں چل رہا تھا ۔عورت ایسے
سوئی ھوئی تھی ، گویا عرصے بعد ، سونا نصیب ھوا ھو ۔ میں نے عالیہ سے افسوس کا
اظہار کیا ، دو چار رسمی جملے بولنے کے بعد میں نے اجازت طلب کی، مگر عالیہ نے
کہا ، کو آخر میں اس کے گھر پہلی مرتبہ آیا ھوں ۔ کچھ نہ کچھ تو کھا کر جاؤں ۔ " یہ کہ کر
عالی اٹھی ، اور کچن کو چل دی ۔ میں اندر ایک کمرے میں بیٹھا تھا ۔
شائد یہ عالی کا ہی کمرہ تھا کیونکہ اس میں جگا جگا عالی کی ھی تصویریں لگی
ھوئی تھیں ۔ ان میں سے چندکالج کی بھی تھیں۔ ایک تصویر میں تو میں بھی موجود تھا ۔
میں پرانے دنوں میں کھو سا گیا ۔ عالیہ کے قدموں کی آھٹ نے مجھے چونکایا ۔ وہ ھاتھ
میں بریانی پکڑے مسکرا رھی تھی ۔ میں نے چاول کھائے ، وہ مجھے کھانا دینے کے بعد
چائے بنانے کچن میں گئی ، اور میں بھی وہیں چلا گیا۔ یہ آنٹی اتنی جلدی کیوں سو
رھی ھیں ؟ " میں نے کچن میں ایک جگہ ٹیک لگاتے ھوئے سوال کیا۔ جواب میں وہ
مسکرائی ، اور بولی ،" اس لئے کہ ، میں نے آنٹی شمیم کو نیند کی ٹیبلٹ دی ھوئی
ھے، اور ئہ اب صبح آٹھ بجے سے پہلے نہیں اٹھنے والیں ۔ "
اس نے کپ میں چائے انڈیلتے ھوئے کہا ، اور میں پھر
چونک اٹھا۔ عالی مستی بھری آنکھوںuسے مجھے دیکھ رھی تھی۔ مجھے اپنی شلوار
میں اب واضح ہلچل محسوس ھو رھی تھی۔ اب کے مجھے عالیہ کی یہ بت سن کر
پریشانی نہیں ھوئی تھی ، بلکہ اچھا لگا تھا۔
عالی نے کپ اٹھایا اور میرے برابر آن کھڑی ھوئی، اس کی آنکھوں میں خمار ہی خمار نظر
آ رھا تھا۔ اس نے اپنا داھنا ھاتھ میرے سر کےبالوں پر رکھا ، ھاتھ کو ذرا سا اوپر سے
نیچے حرکت دیتے ھوئے میرے چہرے پر جب اس کا ھاتھ آیا ، تو اس نے باقی انگلیاں کلوز
کر لیں ، صرف شھادت والی انگلی میرے ہونٹوں سے ٹچ کی، میں بھی اس کا انداز
سمجھ چکا تھا ۔ ویسے بھی ، اب کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ میں نے اس کی انگلی پر ھلکا
سا کس کیا اور اس کا ھاتھ تھام لیا ۔ مگر وہ ھاتھ چھڑا کرکمرے کی طرف بھاگ گئی ،
جاتے جاتے وہ مجھے بھی اندر آنے کا اشارہ کر گئی تھی۔ میرے انگ انگ میں نامعلوم
قسم کا کرنٹ دوڑنا شروع ھو چکا تھا۔میرا لن مستی پکڑ رھا تھا۔ شائد اس کو بھی پتہ
چل گیا تھا ، کہ خواب سچا ھونے والا ھے ، اور اس کی ضرورت پڑنے والی ھے۔ میں نے
کپ اٹھایا اور عالی کے پیچھے کمرے کی جانب چل پڑا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یقیناْ میری آج کی رات انتہائی مستیوں میں گزرنے والی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچن سے کمرے تک کا سفر مجھے اس وقت بہت ھی طویل
محسوس ھو رھا تھا ۔ میرے انگ انگ میں لطیف قسم کے جذبات سر اٹھا رھے تھے ۔ جب
میں کمرے میں داخل ھوا ، عالی بیڈ کے دوسرے کنارے پر بیٹھی چائے پی رھی تھی ،
میں نے بھی اپنی چائے ختم کی ، اور کپ ایک طرف رکھ دیا ۔ دروازہ میں داخل ھوتے
وقت ھی بند کر چکا تھا جس پر عالی نے کوی اعتراض نہیں کیا تھا ۔ یعنی اب تمام
سگنل کلئر تھے ۔ میں اب بھی پیش قدمی کرنے میں ہچکچا رہا تھا ، مبادا عالی پانچ
سال پہلے کی طرح مجھے پھر بے عزّت کر دے ۔ لیکن آج عالی نے شائد سوچ رکھا تھا ،
کہ خودکی تشنگی بھی مٹائے گی ، اور مجھے بھی اپنے حسین ، مرمریں جسم کے
نشیلے جام سے سیراب کر کے چھوڑے گی ۔ وہ میرے محتاط رویّے کو بھانپ چکی تھی ۔
چنانچہ خود ھی میرے پاس آ کر کھڑی ھو گئی
اس کی سانسوں کا زیرو بم بتا رھا تھا ، کہ اس کے سینے میں کوئی بھت ھی شدید
قسم کی کشمکش چل رہی ھے ۔ کچھ یہی کیفیّت میری بھی تھی ۔ عالی میرے پاس آ کر کچھ دیر تک مجھے خمار
آلود نظروں سے دیکھتی رہی ، پھر اچانک ، وہ بجلی کی سی تیزی سے مجھ سے لپٹ گئی ۔ میں بھی آنے واے
لمحات کو بھانپ چکا تھا ، سو میں نے عالی کو اپنی بانہوں میں بھر لیا
عالی کی تیز چلتی سانسیں اس کے سینے کے اندر موجود تلاطم کی غمّاز تھیں ۔ میں
بھی اب پرھیز گاری کے خول سے نکل آیا تھا ، کیونکہ عالی نے تمام شرم بالائے طاق رکھ
کر اپنا وجود خود میری بانہوں میں دیا تھا ۔
اور اگر میں یہاں پر بھی گریز سے کام لیتا ، تو یہ عالی کی توھین ھوتی ، اس کے مکھن
ملائی جسم کی توھین ھوتی ، اور میں اتنا بھی ظالم نہیں تھا ، کہ اس طرح حسن کو
ذلیل کروں ، چنانچہ اب میں حسن کی صحیح معنوں میں قدر کر رھا تھا ۔ میرے ھاتھ
آٹومیٹک انداز میں اٹھے ، اور اس کی گھنیری زلفوں میں حرکت کرنے لگے ۔ گو کہ عالی
کے جسم کا لمس مجھے پاگل کر رھا تھا ، مگر میں اتنا بھی بے صبرا نہیں تھا ۔ جنگ
لڑنے سے پہلے میدان۔ جنگ ھموار کرنا انتہائی ضروری تھا ، میرے ھاتھ اس کی سیاہ
زلفوں میں حرکت کرتے کرتے اب اس کے شانوں پر آ گئے تھے ، لیکن اس سے بھی خاص
کام جو میں نے کیا تھا ، وہ یہ تھا کہ ، ، ، ، میں نے عالی کا چھرہ اوپر اٹھا لیا تھا ، اور
اس کی حسین پیشانی پر کسنگ کر رھا تھا ۔ پیشانی کے بعد میں نے اب اس کے گالوں
کا رخ کیا ، عاللی کے تیز چلتے سانسوں کی آواز مجھے صاف اپنے کانوں میں سنائی دے
رھی تھی۔ اس کی سانسوں کی تیز آواز میرے جذبات کو مزید بھڑکا رھی تھی ۔ میں
اب کسنگ کرتے کرتے اس کے ھونٹوں پر آ چکا تھا ۔ میرے ھاتھ بھی اب اس کی کمر سے
ھوتے ھوئے اس کے چوتڑوں کو ٹچ کر رھے تھے ۔ اف، ، ، کیا مست جسم تھا عالی کا ،
میں نے اپنے ھونٹ اس کے گلاب ھونٹوں میں پیوست کر دئے ، اور ھلکے سے کاٹ لیا ،
بے ساختہ عالی کے منہ سے سسکاری نکلی ، اور اس نے فوراْ اپنی بند آنکھیں کھول
کر میرے آنکھوں میں جھانکا ۔ یہی تو میں چاھتا تھا ، کہ جب میں اس کے ھونٹوں کی
کسنگ سٹارٹ کروں تو اس وقت اس کی آنکھیں کھلی ھوں ، تا کہ میں اس کے چہرے
کے تاٴثّرات نوٹ کر سکوں ، میرا یہ عمل صرف جنسی اشتعال کو مھمیز کرنے کے لیئے تھ
۔
عالی سے نظریں ملتے ھی میں شرارت سے مسکرایا ، اور اس کے ھونٹ چوسنا شروع
کر دئے ۔ عالی بلش ھو کر رہ گئی ۔ میں نے پہلے آھستہ آھستہ کسنگ سٹارٹ کی تھی
، پھر میں نے اسکی سپیڈ میں اضافہ کر دیا ، میرے ھاتھ اب عالی کی قمیض کے اندر
حرکت کر رھے تھے ۔ میں نے اس کی کسنگ کے ساتھ اپنے ھاتھوں سے اس کی کمر
کی پیمائش کی ، اور ھاتھ پھیرتا پھیرتا اس کی چھاتی پر پہنچ گیا ۔ اس نے اندر برا پہنا
ھوا تھا ، میں نے اسی ھاتھ سے اس کے ممّوں کو برا کی قید سے آزاد کیا ، اور ذرا سا
پیچھے ھٹ آیا ، عالی مستی کی انتہاؤں پر تھی ، نا سمجھی کے انداز میںuمجھے
دیکھنےلگی ، میں نے اس کی قمیض پکڑ کر اوپر کی جانب اٹھانا چاھا ، وہ سمجھ گئی ،
اور قمیض اٹھانے لگی ،، ، مگر دوسرے ھی لمحے اچانک اس نے قمیض نیچے کر دی ۔
سیکسی گپ شپ کو دل کر رہا ہے اگر کوئی لڑکی انٹی بھابی اپنا حال دل شیر کرنا چاہتی ہے تو ہاٹسایپ پر میسج کرو+923127264458
ReplyDelete